جمعرات 18 ستمبر 2025 - 12:32
مناظرہ | ایک خاتون جس نے اہل سنت کے عالم کو لاجواب کر دیا

حوزہ/ ایک دلیر خاتون نے منبر پر خطاب کرتے ہوئے اہلسنت عالم دین سبط بن جوزی سے نہایت دقیق سوالات کے ذریعے امام علیؑ کی عدالت اور عثمان و سلمان کی تدفین سے متعلق تاریخی واقعات پر بحث چھیڑ دی اور انہیں جواب دینے میں سخت مشکل سے دوچار کر دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | محمد محمدی اشتهاردی کی تحریر کردہ کتاب "صد و یک مناظره جالب و خواندنی" میں عقیدتی اور دینی موضوعات پر مختلف مناظرے جمع کیے گئے ہیں، جنہیں حوزہ نیوز قسط وار شائع کرے گا۔

سبط بن جوزی اہل سنت کے بڑے اور مشہور علماء میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں اور ہمیشہ بغداد کی مساجد میں وعظ و نصیحت اور خطبوں کے ذریعے عوام کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ بالآخر وہ ۱۲ رمضان ۵۹۷ ہجری کو بغداد میں وفات پا گئے۔(۱)

امام علی علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ بارہا فرمایا کرتے تھے:

"سَلونی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدونی"

یعنی "مجھ سے جو پوچھنا ہے پوچھ لو، اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو۔"

یہ جملہ صرف امام علیؑ اور دوسرے معصوم اماموںؑ سے مخصوص ہے۔ جو بھی اس کے بعد ایسا دعویٰ کرتا، رسوا ہو جاتا۔ اب آئیے ایک دلیر خاتون اور سبط بن جوزی کے درمیان ہونے والے ایک دلچسپ مناظرے کی طرف:

ایک دن سبط بن جوزی منبر پر بیٹھے ہوئے یہی جملہ دہرا رہے تھے:

"اے لوگو! سَلونی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدونی!"

اس وقت وہاں شیعہ اور سنی، مرد و عورت سب موجود تھے۔

اچانک ایک خاتون نے منبر کے نیچے سے سوال کیا:

خاتون: بتائیے کیا یہ حدیث درست ہے کہ جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے عثمان کو قتل کیا تو اس کی لاش تین دن تک زمین پر پڑی رہی اور کوئی بھی اسے اٹھا کر دفنانے نہیں آیا؟

سبط: جی ہاں، یہ درست ہے۔

خاتون: کیا یہ حدیث بھی درست ہے کہ جب سلمان فارسی مدائن میں وفات پا گئے تو امام علیؑ مدینہ (یا کوفہ) سے مدائن تشریف لے گئے، ان کے جنازے کی نماز پڑھائی، تدفین میں شرکت کی اور اجازت نہ دی کہ ان کا جنازہ زمین پر باقی رہے، پھر واپس آ گئے؟

سبط: جی ہاں، یہ بھی درست ہے۔

خاتون: تو پھر یہ بتائیے کہ جب عثمان کا انتقال ہوا اور امام علیؑ مدینہ میں موجود تھے تو وہ کیوں عثمان کے جنازے کے لیے نہ گئے اور نہ ہی اس کی تدفین میں حصہ لیا؟

اس صورت میں یا تو علیؑ کو قصوروار ماننا پڑے گا کہ انہوں نے عثمان کی تدفین میں کوتاہی کی، یا پھر عثمان کو غیر مؤمن ماننا پڑے گا کہ علیؑ نے خود کو اس کی تدفین سے الگ رکھا۔ یہاں تک کہ تین دن بعد اسے چھپ کر بقیع کے پیچھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا! (جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ، ج ۹، ص ۱۴۳ میں نقل کیا ہے)

یہ سوال سن کر سبط بن جوزی بالکل لاجواب ہو گئے، کیونکہ اگر وہ حضرت علیؑ کو خطاکار کہتے تو اپنے عقیدے کے خلاف تھا، اور اگر عثمان کو خطاکار مانتے تو یہ بھی ان کے عقیدے سے ٹکراتا تھا، کیونکہ وہ دونوں کو خلیفہ برحق مانتے تھے۔

لہٰذا انہوں نے موضوع بدلنے کے لیے کہا:

"اے عورت! اگر تم شوہر کی اجازت سے گھر سے باہر آئی ہو اور یوں نامحرم کے سامنے مجھ سے بحث کر رہی ہو تو خدا تیرے شوہر پر لعنت کرے، اور اگر بغیر اجازت آئی ہو تو خدا تم پر لعنت کرے!"

وہ ہوشمند خاتون فوراً بولی:

"تو یہ بتائیے، عائشہ جب امیرالمؤمنین علیؑ کے خلاف جنگ کے لیے نکلی تھیں اور جنگ جمل برپا کی تھی، تو وہ شوہر (رسول خدا ص) کی اجازت سے نکلی تھیں یا بغیر اجازت کے؟"

یہ سوال سن کر سبط بن جوزی پھر پھنس گئے، کیونکہ اگر وہ کہتے کہ بغیر اجازت نکلی تھیں تو عائشہ پر اعتراض آتا، اور اگر کہتے کہ اجازت لے کر نکلی تھیں تو حضرت علیؑ کی تردید ہو جاتی، اور دونوں صورتوں میں ان کا عقیدہ مجروح ہوتا۔ آخرکار وہ مجبور ہو کر منبر سے نیچے اتر آئے اور سیدھے اپنے گھر واپس چلے گئے۔(۲)

حوالہ جات:

۱۔ سفینة البحار، ج ۱، ص ۱۹۳

۲۔ الصراط المستقیم، بحوالہ بحار الانوار، ج ۸، ص ۱۸۳

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha